BACK جسٹس اعجاز افضل نے نواز شریف کی نااہلی پر خاموشی توڑ دی 04 نومبر ، 2024 اسلام آباد (فخر درانی) جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے متعلق اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کا انتخاب سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا تھا۔ انہوں نے نون لیگ کی حکومت کی مداخلت کو روکنے کی خاطر واٹس ایپ کال کرنے اور تحقیقات میں فوجی حکام کو شامل کرنے کا اعتراف کیا۔ پاناما پیپرز بینچ کے پانچ ججوں میں سے ایک جج جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے پہلی مرتبہ اپنے فیصلے، کیس کے پس منظر، جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کے انتخاب کے حوالے سے مفصل بات چیت کی۔ انہوں نے کیس کی میرٹس پر بھی تبادلہ خیال کے ساتھ حالیہ عدالتی بحران پر اپنی رائے بھی پیش کی۔ جسٹس (ر) اعجاز افضل خان مئی 2018 میں ریٹائر ہوئے اور اس وقت سے وہ میڈیا سے بات چیت سے گریز کرتے رہے ہیں۔ لیکن، اب انہوں نے پانامہ پیپرز کیس پر بات کی ہے۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں شامل وہ جج تھے جنہوں نے منصفانہ نتیجے پر پہنچنے کیلئے جے آئی ٹی کے ذریعے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ جے آئی ٹی کے نتائج کی بنیاد پر اُنہیں یقین تھا کہ نواز شریف کو اپنے بیٹے سے قابل وصول تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکامی پر نااہل قرار دیا جانا چاہئے۔ ذیل میں اس نمائندے کی ریٹائرڈ جج سے مفصل بات چیت پیش کی جا رہی ہے۔ اس نمائندے نے جسٹس (ر) اعجاز افضل خان سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہےکہ جے آئی ٹی کے ارکان کا انتخاب ایک واٹس ایپ کال کے ذریعے کیا گیا تھا۔ خصوصاً، ریٹائرڈ جج سے یہ بھی پوچھا کہ یہ کال کس نے کی ہے، کیا یہ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ تھے یا کوئی اور- یا بعض اداروں کے سربراہان کو مخصوص نام بھیجنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ریٹائرڈ جج نے تصدیق کی کہ واقعی واٹس ایپ کال کی گئی تھی لیکن ساتھ ہی اس پراسیس کی وضاحت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ جب اس وقت کی حکومت نے جے آئی ٹی کیلئے نام تجویز کیے تو سپریم کورٹ کے ججوں نے محسوس کیا کہ یہ افراد ’’قابل رسائی‘‘ ہیں جس سے تحقیقات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی مخصوص نام نہیں مانگے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے صرف غیر جانبداری کو یقینی بنانے کی خاطر اچھی ساکھ کے حامل عہدیداروں کی فہرست کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ذاتی طور پر کال نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی تھی کہ وہ محکموں سے کہیں کہ وہ قابل اعتماد اعلیٰ حکام کے نام تجویز کریں۔ جسٹس اعجاز افضل نے حکومتی اثرورسوخ کے بارے میں خدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین جیسے عہدیداروں کے شریف فیملی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، جس سے ایسی حساس تحقیقات میں ان کی آزادی پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ جج سے جے آئی ٹی کی سیکیورٹی کیلئے آئی ایس آئی حکام کی تعیناتی کے فیصلے اور دو فوجی اہلکاروں کو جے آئی ٹی کے ارکان میں شامل کرنے کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ ان سے صحافی احمد نورانی کی خبر کا بھی پوچھا گیا جس میں نورانی نے موقف کے حصول کیلئے جسٹس (ر) اعجاز افضل خان سے رابطہ کیا لیکن بعد میں نورانی کو اس معاملے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے جسٹس اعجاز نے تصدیق کی کہ نورانی نے ان سے رابطہ کرکے اس حوالے سے سوال کیا تھا جس پر میں نے اُنہیں کہا کہ ہم اپنے فیصلوں سے بات کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر ان کا بیان شاہ زیب خانزادہ نے اپنے شو پر بھی نشر کیا تھا۔ جے آئی ٹی کیلئے فوجی حکام کے انتخاب کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے فوجی حکام کا انتخاب اس لیے کیا کہ دیگر ایجنسیوں کے افراد قابل رسائی تھے، ہم منصفانہ تحقیقات چاہتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فوجی اہلکار ڈان لیکس کی جے آئی ٹی کا حصہ تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتے لیکن کہا کہ اگر شریف خاندان کو اس معاملے پر تشویش ہوتی تو وہ شکایت درج کروا سکتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پانامہ پیپرز کیس کے دوران کبھی کسی فوجی جنرل نے ان سے رابطہ کیا تھا تو جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے کہا کہ مجھ سے ایک بار کے علاوہ کسی فوجی جنرل نے رابطہ نہیں کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بحیثیت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ایک واقعہ شیئر کیا۔ جسٹس اعجاز نے بتایا کہ ایک بریگیڈیئر نے فون کیا تھا کہ کور کمانڈر پشاور ان سے ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے بتایا کہ میں رات 11 بجے تک اپنے چیمبر میں رہوں گا۔ آدھے گھنٹے کے بعد اس بریگڈیئر نے دوبارہ فون کیا اور پوچھا، کیا آپ نیچے فلیگ اسٹاف کے گھر نہیں جا سکتے؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ واک ڈائون نہیں واک اپ ہے، اور میں اوپر چلنے کا عادی نہیں۔ اس کے فوراً بعد انہیں ایک اور کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ کور کمانڈر رات 8 بجے تک ان کے چیمبر کا دورہ کریں گے۔ ملاقات کے دوران کور کمانڈر نے عمومی معاملات پر بات کی حتیٰ کہ کور کمانڈر کا لہجہ تبدیل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر جسٹس، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی قانون کی حکمرانی سے ملک بدل جائے گا؟ ہم لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں اور آپ انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ جسٹس اعجاز نے سختی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک میں ہوں قانون پر عمل ہوگا اور قانون کے مطابق چلوں گا، میں بغیر ثبوت کسی کو مجرم نہیں ٹھہرائوں گا، اگر آپ کے پاس یہ تبدیل کرنے کی طاقت ہے تو ایسا کریں۔ جنرل نے جواب دیا کہ وہ جسٹس اعجاز کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن دہشت گردی کے ماضی کے واقعات کو نہیں بھول سکتے۔ جسٹس اعجاز نے ان سے کہا کہ وہ ہمدردی رکھتے ہیں لیکن جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے کسی کو سزا نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری کسی بھی جرنیل کے ساتھ واحد ملاقات تھی۔ جب ریٹائرڈ جج سے پوچھا گیا کہ کیا پاناما پیپرز کیس کے ججز نے اس وقت کے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کو حدیبیہ کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کرنے کیلئے طلب کیا تھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ پاناما پیپرز کیس کے دوران ججوں نے قمر زمان چوہدری کو طلب کیا تھا، میں نے ان سے کہا کہ یہ ٹھوس تحقیقات ہے، لیکن تحقیقات کے دوران ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا، جو قانوناً نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے چوہدری سے پوچھا کہ کیا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن چوہدری نے انکار کیا۔ بعد ازاں جب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تو انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ تاہم جسٹس عیسیٰ نے لمٹیشن کے باعث اپیل خارج کر دی۔ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ اپیل میں تاخیر کو نظر انداز کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔ انہوں نے کہا کہ شریف فیملی کے مقرر کردہ چوہدری ان کیخلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جسٹس اقبال، نئے چیئرمین نے یہ اپیل تاخیر کی معافی کے ساتھ دائر کی، جسے جسٹس خان نے درست سمجھا، لیکن جسٹس عیسیٰ نے پھر بھی اسے مسترد کردیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پانامہ بینچ کا جسٹس اعجاز الاحسن کو مانیٹرنگ جج مقرر کرنا قانوناً درست تھا جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے واضح کیا کہ مانیٹرنگ جج اکثر دہشت گردی کے مقدمات سمیت کئی مقدمات میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ تاہم، جب اس نمائندے نے نشاندہی کی کہ نچلی عدالتوں میں مانیٹرنگ جج سپریم کورٹ نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے ذریعے مقرر کیے جاتے ہیں، تو انہوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ مقدمات کا بروقت فیصلہ یقینی بنانے کیلئے ہدایات بھی دے سکتی ہے۔ جسٹس خان نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا شریف فیملی سے کوئی ذاتی مسئلہ ہے یا نہیں لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی تھا بھی تو اس پر اعتراض اٹھانا چاہئے تھا۔ پانامہ پیپرز کیس میں نواز شریف کی بریت کے بارے میں جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیخلاف کیس بریت کا کیس نہیں تھا۔ یہ کیس بہت بری طرح چلایا گیا۔ بیٹے کی جانب سے دی گئی (جو انہوں نے وصول نہیں کی تھی) تنخواہ ڈکلیئر نہ کرنے پر نا اہل قرار دیے جانے والے نواز شریف کے حوالے سے جب سوال کیا گیا تو جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے وضاحت کی کہ وہ اپنے فیصلے میں اس معاملے کی تفصیل بتا چکے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جب لوگ فیصلے کو پڑھے بغیر تبصرہ کرتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جسٹس اعجاز کے مطابق نواز شریف نے 2006ء میں اپنے بیٹے کی کمپنی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین منتخب ہونے کے بعد اقامہ حاصل کیا اور ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت وہ ماہانہ 10 ہزار درہم تنخواہ کے حقدار تھے۔جسٹس اعجاز نے کہا کہ ان کی قانونی ٹیم سے اقامہ، ملازمت کے معاہدے اور تنخواہ کی تفصیلات پوچھی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث کی سربراہی میں نواز شریف کی قانونی ٹیم نے ان دستاویزات کی موجودگی کی تصدیق کی۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے وضاحت کی کہ تنخواہ نہ صرف جمع ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ جمع بھی ہوئی۔ عدالت نے تنخواہ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں استفسار کیا تو قانونی ٹیم نے جواب دیا کہ جنوری 2013 میں نواز شریف کے بیٹے نے اپنے والد کو کمپنی بند کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد نواز شریف نے کہا کہ تنخواہ کی پوری رقم جو اس وقت تک تقریباً تین کروڑ روپے تک پہنچ چکی تھی، ان کے بیٹے کی ہوگی۔ جسٹس اعجاز افضل نے مزید کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ سیکشن 12 (2) کے تحت افراد کو گزشتہ سال تیس جون تک کے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے نواز شریف 30 جون 2012ء تک جمع ہونے والی وصول شدہ تنخواہ سمیت اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند تھے اور یہ ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ جسٹس افضل کا کہنا تھا کہ اگر یہ کہا جاتا کہ تنخواہ جنوری 2012ء میں بیٹے کو منتقل کی گئی تھی تو اسے نواز شریف کے اثاثوں کا حصہ نہ سمجھا جاتا۔ موجودہ عدالتی بحران اور عدلیہ کی آزادی کو لاحق خطرات کے بارے میں جسٹس اعجاز افضل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بحیثیت جج آپ آزاد نہیں تو پھر عدلیہ کی آزادی کی ضمانت آئینی شق سے نہیں دی جا سکتی، آپ اپنے فیصلوں کے ذریعے بھی آزادی کو نافذ نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی چیز آپ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔